کوروناکا پیٹنٹ 2006 میں امریکا کی ایک کمپنی نے حاصل کیا جبکہ2014 میں اس کی ویکسین کو پیٹنٹ کروایا گیاحسین ہارون کا انکشاف
Report |
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین ہارون نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں تیزی سے پھیلتا جان لیوا کورونا وائرس ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت لیبارٹری میں تیار کیا گیا.اپنے ویڈیو پیغام کے آغاز میں حسین ہارون نے کہا کہ آج کل کے سب سے زیادہ زیر بحث موضوع یعنی کورونا سے متعلق اس وجہ سے اب تک لب کشائی نہیں کی کہ ہزاروں لوگ بہت سی باتیں کررہے تھے تو ایسی صورتحال میں مجھے کچھ کہنا نامناسب لگا انہوں نے کہا کہ ریسرچ اور فواہوں کا جائزہ لینے کے بعد محسوس یہ ہوا کہ بہت سی اہم
باتوں کو حذف کیا جارہا ہے.انہوں نے بتایا کہ جان لیو ا کورونا وائرس قدرتی نہیں بلکہ اسے لیبارٹری میں ایک سازش کے تحت تیار کیا گیا ہے کہ کوئی ایسی بیماری پیدا کی جائے جو لوگو ں میں خوف و ہراس پھیلائے.انہوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ کورونا 2006 میں امریکا کی ایک کمپنی نے حکومت سے پیٹنٹ یا منظوری حاصل کی 2014 میں یہ ظاہر کرنے کے لیے یہ کسی ایک جگہ سے حاصل نہیں کیا گیا ہے تو اس کی ویکسین کی پیٹنٹ ڈالی گئی لیکن اسے نومبر 2019 میں باقاعدہ منظور کیا گیا جس کی ویکسین اسرائیل میں بننا شروع ہوئی ہے.دوسری جانب اس بارے میں اسرائیل نے یہ واضح اعلان کیا ہے کہ جو ملک ہمیں مانتے ہیں صرف انہیں ویکسین مہیا کی جائے گی انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرنا بھی ضروری سمجھا کہ امریکا ، چین کی ترقی سے پچھلے کچھ عرصے سے گھبراہٹ کا شکار تھا.سابق سفیر نے اپنے ویڈیو پیغام میں پیٹنٹ نمبر کے حوالے سے تفصیلات بھی بتائیں سابق سفیر کا کہنا تھا کہ کورونا کو انگلینڈ کے پیر برائٹ انسٹیٹیوٹ میں بنایا گیاجس کی مالی مدد بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاﺅنڈیشن نے کی انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو دنیا بھر میں گھومتے ہیں کہ ہم آپ کی مدد کے لیے آئیں ہیں، لوگوں کی صحت کے حوالے سے فکر مند ہیں، تاہم ان کے ارادے کچھ اور ہی ہوتے ہیں.انہوں نے بتایا کہ اس وائرس کو بنانے کے لیے جان ہاپکنز گیٹس فاﺅنڈیشن اور ورلڈ اکنامک فورم نے مالی مدد کی انہوں نے کورونا کو مخصوص کوویڈ -19 نام دینے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ کورونا کو سینٹر آف ڈیسیس کنٹرول سی ڈی سی کی اجازت سے بنایا گیا انہوں نے بتایا کہ ووہان میں بیماری پھیلانے سے پہلے مذکورہ ممالک نے اس کی دوائی بنانے کی ضرورت محسوس کی اور ایونٹ 201 نامی ایک دوائی کی کمپیوٹر پر مشق بھی کی انہوں نے اس بات سے بھی پردہ اٹھایا کہ انگلینڈ میں اس وقت ایک چینی بائیولوجسٹ کیڈک چینک کو حراست میں رکھا گیا ہے ادھر سوشل میڈیا پر چینی خفیہ ایجنسی کی ایک مبینہ رپورٹ بھی گردش کررہی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس برطانیہ کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا اسے امریکا میں رجسٹرڈ کیا گیا اور پھر کینیڈا کی لیبارٹری سے کینیڈا کی پرواز کے ذریعے باقاعدہ طور پر ووہان کی لیبارٹری میں پہنچایا گیا.رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وارئرس کو ایک حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا کام انگلینڈ کے Pirbright Institute نے شروع کیا Pirbright Instituteکے اس پروجیکٹ کے مالی مددگار Bill Gates and Melinda Gates Foundation اور Johns Hopkins Bloomberg School of Public Health کورونا وائرس کو باقاعدہ امریکا میں Pirbright Institute نے پیٹنٹ بھی کرایا جس کا پیٹنٹ نمبر 10, 10,701 تھا
جنوری میں امریکا میں پہلے کیس کے دریافت ہوتے ہی یہ پیٹنٹ ختم کردیا گیا
کورونا وائرس جسے امریکا کے ادارے The Centers for Disease Control and Prevention (CDC)نے 2019-nCoV کا نام دیا ہے سے بچاﺅ کے لیے 18 اکتوبر 2019میں ہی نیویارک میں کمپیوٹر پر مشق کرلی گئی تھی مذکورہ مشق کا انتظام بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاﺅنڈیشن ، جان ہوپکنز سینٹر فار ہیلتھ سیکورٹی نے ورلڈ اکنامک فورم کے اشتراک سے کیا تھا اس مشق جس میں پارلیمنٹ ، بزنس لیڈروں اور شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے افراد نے حصہ لیا تھا اس امر کی مشق کی گئی کہ کورونا وائرس کے وبا کی صورت میں پھیلنے کی صورت میں اس سے بچاﺅ کس طرح سے کیا جائے اس مشق کو Event 201کا نام دیا گیا.یہ ایک فل اسکیل ایکسرسائیز تھی جو چین کے وسطی علاقے ووہان میں پہلا کیس رپورٹ ہونے سے چھ ہفتے قبل کی گئی تھی یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ کورونا وائرس سے بچاﺅ کی کمپوٹر پرمشق کا اہتمام کرنے والی تنظیمیں وہی تھیں جو اس وائرس کے پیٹنٹ کے مالک ادارے کو فنڈز فراہم کررہی تھیں.رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہی ادارے اور تنظیمیں کورونا وائرس کی ویکسین پر کام کررہے ہیں۔18 اکتوبر کو ہونے والی مشق کے شرکاءمیں دنیا کے بڑے بینکوں بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاﺅنڈیشن جانسن اینڈ جانسن ، لاجسٹیکل پاورہاﺅسز،دنیا کے بڑے میڈیا ہاﺅسز‘سوشل میڈیا کمپنیوں کے علاوہ چین اور امریکی ادارے CDC کے نمائندے بھی شریک تھے.
مشق میں باقاعدہ ماحول بنایا گیا کہ میڈیامیں کورونا وائرس کے پھیلنے سے تباہی کی بریکنگ رپورٹ آرہی ہیں ، شہری خوفزدہ ہیں اور حکومت سے اس کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کررہے ہیںووہان میںZhengdian Scientific Park of Wuhan Institute of Virology میں Wuhan National Biosafety Laboratory لیول 3 اور لیول 4 واقع ہیں لیبارٹری میں لیول کی درجہ بندی کسی بھی وائرس کومحفوظ رکھنے کے انتظامات کے حوالے سے کی جاتی ہے.
کورونا وائرس چین پہنچانے میں دوچینی سائنسدانوں کا نام لیا جاتا ہے جن میںDr. Xiangguo Qiu جو ماہر وائرس بھی تھی اور 1996 میں کینیڈا مزید تعلیم کے لیے آئی اور ان کے شوہر Keding Cheng اس وقت کینیڈا کے شہر ونی پیگ کی لیبارٹری میں بطور بائیولوجسٹ میں کام کرتا ہے یہ دونوں میاں بیوی ایبولا اور سارس وائرس پر تحقیقی کام کرتے تھے گزشتہ جولائی میں CNBC نیوز نے رپورٹ کیا تھا کہ ونی پیگ کی لیبارٹری سے ایک چینی خاتون سائنسداں اس کے شوہر اور ان کے چند پوسٹ گریجویٹ طلبا کو حراست میں لیا گیاہے.
اس خبر کے ایک ماہ کے بعد CNBC نے مزید خبر دی کہ مذکورہ سائنسداں جوڑے نے ایبولا اور Henipah کے وائرس ائر کینیڈا کی پرواز کے ذریعے 31 مارچ کو چین بھیجے تھے خبر کے مطابق وائرس کی شپمنٹ کے لیے تمام قواعد و ضوابط پر عمل کیا گیا تھاکہا جاتا ہے کہ اسی شپمنٹ کے ذریعے کورونا وائرس بھی ووہان کی لیبارٹری بھجوایا گیا اور فالو اسٹوری میں بتایا گیا کہ ڈاکٹر چی نے 2017 کے دوران چین کے پانچ دورے کیے جس میں چین کی لیول 4 کی نئی لیبارٹری کے ٹیکنیشنوں اور سائنسدانوں کو تربیت فراہم کی گئی.
یہ سائنسداں جوڑا اب بھی زیر حراست ہے کورونا کا پیٹنٹ وائرس ونی پیگ کی لیبارٹری کے علاوہ انگلینڈ کی لیبارٹری سے اور بھی کئی ممالک کی لیبارٹریوں کو فراہم کیا گیا. خفیہ ایجنسی کی اس مبینہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران چائنہ اور اٹلی تینوں ممالک کورونا سے بری طرح متاثر ہوئے نوبت یہاں تک پہنچی 1962 کے بعد ایران نے پہلی مرتبہ آئی ایم ایف سے پانچ ارب ڈالر کا قرض مانگا ہے ‘ اٹلی کو ون بیلٹ ، ون روڈ منصوبے میں شامل ہونے کی سزا ملی ، کیونکہ اٹلی امریکہ کے منع کرنے کے باوجود وہ چین کے ساتھ منصوبے میں شراکت دار بنا.
ایران میں چین اگلے پچیس سالوں میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا تھا یہی ایران کو سزا دینے کا سبب بنا حقیقت کیا ہے؟ ان سازشی تھوریاں میں کس حد تک حقیقت ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے کئی طبقات میں یہ سوچ پائی جارہی کہ کورونا اصل میں ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے ان حالات میں اقوام متحدہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عالمی سطح پر غیرجانبدرانہ تحقیقات کروائے کہ کورونا ایک وبائی مرض ہے یا حیاتیاتی ہتھیار.
0 Comments